٭مہینے کا مسلمان٭

٭مہینے کا مسلمان٭
------------------

دوستو! یہ تقریباً 80 کی دہائی کی بات ہے لاہور کے علاقہ یتیم خانہ چوک میں ایک حجام "چاچا اسلم" کی دکان تھی۔ زندگی اپنی روٹین سے گزر رہی تھی۔ چاچا اسلم روزانہ وقتِ مقررہ پر علی الصبح اپنی حجامت کی دکان کھولتا اور بغیر کسی وقفے کے یہ سلسلہ رات عشاء تک جاری رہتا۔
مادیت اور پیسے کی دوڑ دھوپ کی اس کشمکش میں ایک ایسا بھی وقت آیا کہ آنے والے رمضان سے چند ہفتے پہلے چاچا اسلم کو عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپسی پر اُس نے عہد کیا کہ، "رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں نہ تو وہ خود اپنی داڑھی شیو کرے گا اور نہ ہی کسی گاہک کی شیو بنائے گا۔۔۔!"
چنانچہ اُس نے ایک اشہتار لکھ کر اپنی دکان کے باہر آویزاں کیا جس کی عبارت تھی "رمضان المبارک کے احترام میں یہاں داڑھی شیو نہیں کی جائے گی برائے مہربانی اصرار کر کے اپنا قیمتی وقت مت ضائع کریں۔۔!"
اور یوں رمضان المبارک کے پورا مہینہ میں چاچا اسلم نے اپنے عہد کے مطابق کسی بھی گاہک کی شیو نہیں بنائی، اور صرف بالوں کی کٹنگ پر ہی اکتفاء کیا۔
اس عہد سے بھلے ہی اُسے کافی نقصان ہوا اور اُس کے کافی"پکے" گاہکوں نے دوسرے حجاموں کی طرف رجوع کر لیا تھا، لیکن وہ پھر بھی اپنے عہد پر قائم رہا۔ اور یوں آہستہ آہستہ رمضان المبارک رخصت ہو گیا۔
چاند رات کا منظر تھا، ہر طرف ایک خوشی اور شادمانی کا سماں تھا۔ چھوٹے بڑے، سبھی بہت خوش تھے نوجوانوں کا ایک رش چاچا اسلم کی دکان کے باہر کھڑا تھا۔ "چلو چاچا! جلدی سے شیو بنا دو، اب تو رمضان بھی ختم ہو گیا۔۔!" پہلے ہی گاہک نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا۔
چاچا اسلم جو پتہ نہیں کن سوچوں میں گم تھا، اُسے چاند رات کی خوشی سے زیادہ رمضان المبارک کے چلے جانے کا غم تھا، بادلِ نا خواستہ اُٹھا اور اُس گاہک کی طرف بڑھا۔ اُس نے جیسے ہی اُس نوجوان کے چہرے کی شیو بنانے کا قصد کیا ہاتفِ غیبی سے اُس کے ضمیر کی آواز آئی۔۔۔!
"اے اسلم! کیا تو صرف ایک مہینے کا مسلمان تھا۔۔۔؟"
"کیا تیرا اسلام اور عہد صرف رمضان تک ہی موقوف تھا؟
"کیا رمضان میں تیرے گاہکوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے جو تیرا مالی نقصان ہوا ہے اُس سے تو بوکھلا گیا ہے، جو یہ مکروہ فعل پھر سے انجام دینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہے؟"
"کیا تیرا اپنے اللہ پر سے یقین ختم ہو گیا ہے؟"
=================================
ضمیر کی یہ ایسی آواز تھی جس نے چاچا اسلم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، پوچھنے والوں نے بہت زور لگایا کہ چاچا! کیا ہوا؟، کیا پریشانی ہے؟
لیکن چاچا اسلم نے نے کسی کی بات کا جواب دئیے بغیر اپنے آنسو پونچھے، ایک سادے سفید کاغذ پر ایک عبارت لکھی اُسے دکان پر آویزاں کیا اور چپ کر کے دکان میں بیٹھ گیا، اُس کی عبارت کا متن تھا۔۔!
"اب یہاں پر کبھی شیو نہیں کی جائے گی، برائے مہربانی اصرار کر کے اپنا قیمتی ٹائم مت ضائع کریں، شکریہ۔۔۔۔!"
عزیز دوستو! آخر میں صرف ایک سوال پوچھوں گا کہ کیا مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے پاس بھی وہ ایمانی طاقت موجود ہے جو ہمارے اندر پنپ رہے گناہوں اور سیاہ کار برائیوں کا قلاقمہ کر سکے؟ اور کیا رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لیے بھی اتنا ہی احسان مند ثابت ہو سکتا ہے جتنا چاچا اسلم کے لیے ہوا تھا۔؟؟
اگر ایسا ہے تو آج ہی ارادہ کیجئے اور پکا ارادہ کیجئے کہ اِس بابرکت مہینے میں ایک بُرائی کو کم از کم رمضان کی حد تک چھوڑیں گے، انشاء اللہ، اللہ اِس مہینے کی برکت سے اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب کو سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

No comments

Powered by Blogger.